فراڈ کا ایک نیا طریقہ یہ ھے کہ لوگ پراپرٹی کے نام پر اور کچھ کالونیاں بنا کر لوگوں کو پلاٹ اور مکان وغیرہ بیچ کر لوٹنا شروع کر دیتے ھیں۔ یہ ھاؤسنگ سوسائٹیاں غیر قانونی ھوتی ھیں اور لوگوں کے روپے دینے کے باوجود ان کو حقوقِ ملکیت نہیں مل پاتے ۔ یہ فراڈئیے ایک مافیا کی صورت میں کام کرتے ھیں جس میں بہت سارے لوگوں کی ایک ٹیم شامل ھوتی ھے۔ اور کچھ سرکاری ملازمین بھی اس پراپرٹی اور فراڈ مافیا ٹیم کا حصہ ھوتے ھیں جس کی وجہ سے اس فراڈ پراپرٹی مافیا کو سہولت کاری بھی میسر آجاتی ھے اور پھر یہ لوگ اربوں روپے لوگوں ڈے ہتھیانے کے بعد ملک سے فرار ھو جاتے ھیں۔
ایسا ھی ایک واقعہ حال ھی میں لاھور میں بھی پیش آیا جس میں پراپرٹی کے نام پر 5 سے 7 ارب کا فراڈ کیا گیا۔ جس سے لاھور کا پراپرٹی سیکٹر لرز اٹھا۔ اسکی تفصیل کچھ یوں ھے کہ۔
لاہور کے پراپرٹی سیکٹر میں 5 سے 7 ارب روپے کا فراڈ، سنسنی خیز انکشافات
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، سینئر صحافی اور اینکر پرسن مبشر لقمان نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے کئی شہروں میں لینڈ مافیا کا راج ہے، جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت دونوں اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ پراپرٹی کے شعبے میں ہونے والے فراڈ کے حوالے سے کوئی شک نہیں کہ طاقتور مافیا غریب شہریوں کو دھوکہ دے کر لوٹ لیتا ہے۔ اکثر اوقات کاغذات میں جعلسازی کی جاتی ہے، اور لوگوں کو رقم دینے کے باوجود زمین کا قبضہ نہیں ملتا۔ ماضی میں تو پورے کے پورے ریکارڈ کو جلا دیا جاتا تھا تاکہ ثبوت باقی نہ رہے۔
مبشر لقمان نے مزید کہا کہ جلا ہوا ریکارڈ پرانی تاریخوں میں دوبارہ بنایا جاتا ہے اور قبضہ مافیا سفید کپڑوں میں معززین کا روپ دھار کر معاشرتی محفلوں میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ ان مافیاز نے غریبوں کی آہوں اور سسکیوں پر اپنے محلات تعمیر کیے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام پر بڑے پیمانے پر فراڈ کیے گئے۔ زیادہ تر سوسائٹیز آبادی کی صورت اختیار کر گئیں، لیکن جہاں بھی فراڈ مافیا پہنچتا، وہاں شرفاء کی عمر بھر کی کمائی لٹ جاتی اور وہ عدالتوں کے دھکے کھاتے رہتے۔ اب یہ مافیا بڑے شاپنگ مالز تک پہنچ چکا ہے۔
انہوں نے ایک ہائی پروفائل جوڑے، نازیہ اور وسیم ظفر، کی کہانی بیان کی جو "بنٹی اور ببلی" کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ جوڑا پانچ سے سات ارب پاکستانی روپے کے فراڈ میں ملوث ہے۔ انہوں نے میڈیسن اسکوائر سے اپنی کمپنی "سکس سینس" کے نام سے آغاز کیا اور جو بھی پروجیکٹ ہاتھ آیا اسے لے لیا۔ ان کا پہلا پروجیکٹ میڈیسن اسکوائر تھا جہاں لوگوں کو اپارٹمنٹ بیچے گئے، لیکن ڈلیور نہیں کیا گیا۔ پھر ایک اور بہانہ بنا کر لوگوں کو نئے پروجیکٹ میں شامل کیا گیا۔
یہ جوڑا سنچری وینچر کے نام سے ایک اور پروجیکٹ لے کر آیا، جس میں بھی ہزاروں لوگ متاثر ہوئے۔ اس پورے پروجیکٹ کا تین سال گزرنے کے باوجود کوئی کام نہیں ہوا۔ جب لوگوں کا دباؤ بڑھا تو انہوں نے ایم ایم عالم روڈ پر ایک نیا پلاٹ حاصل کیا اور وہاں بھی زمین بیچنا شروع کر دی۔ لیکن فروری 2023 میں ڈیلیور نہ ہونے کی وجہ سے زمین ڈاٹ کام نے ان کے پروجیکٹ لینے سے انکار کر دیا۔
اب پانچ سال گزر چکے ہیں اور سنچری وینچر کے متاثرین کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اس جوڑے نے ایک بار پھر ملک سے فرار ہو کر اپنی فلمی کہانیاں چلانی شروع کر دی ہیں کہ انہیں مزید وقت دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے چھ ارب روپے آخر کہاں گئے؟
مبشر لقمان کا مزید کہنا تھا کہ جب آپ ایل ڈی اے (لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی) جائیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ سنچری 99 کا پروجیکٹ دراصل صرف چار کنال کا تھا، لیکن انہوں نے اسے آٹھ کنال کا ظاہر کر کے بیچ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب دینا کچھ نہیں تھا، تو ان پر احسان سمجھیں کہ انہوں نے آٹھ کنال کا بیچا، ورنہ یہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔ ایل ڈی اے میں کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود نہیں ہے۔ اکثر زمین اتنی نہیں ہوتی جتنی بیچی جاتی ہے، اور یہ سب ایل ڈی اے کے اندر بیٹھے کچھ افسران کی ملی بھگت کی وجہ سے ہوتا ہے۔
مبشر لقمان نے مزید کہا کہ پولیس کو تو ویسے ہی بدنام کیا جاتا ہے، لیکن اصل دیہاڑی باز یہ لوگ ہیں جو ایل ڈی اے میں بیٹھے ہیں۔ اب "سکس سینس" پر مقدمات درج ہونا شروع ہو گئے ہیں، جو ایک خوش آئند پیشرفت ہے۔
Source.: baaghitv.com
13 ستمبر۔ 2024.
اسی طرح کے مزید معلوماتی آرٹکلز پڑھنے کیلئے میتے اس بلاگ کو بک مارک کرلیں۔ شکریہ۔
No comments:
Post a Comment